جاں نثار
چھو سکی تجھ کو کہاں وقت کی بادِ سموم
تُو وہی ایک شگفتہ سا چمن آج بھی ہے
وہی ہنستی ہوئی آنکھیں، وہی کِھلتے ہوئے لب
وہی شاداب چھریرا سا بدن آج بھی ہے
وہی اک سمت ڈھلکتی ہوئی بالوں کی لٹیں
گوشۂ رُخ میں وہی سانولاپن آج بھی ہے
وہی جملوں میں سلیقے سے سموئے ہوئے شعر
وہی کمبخت ترا ذوقِ سخن آج بھی ہے
وہی پلکوں کے شب آلود خنک سائے میں
ایک سوئی ہوئی بے نام تھکن آج بھی ہے
اے مری روحِ تخیّل، مری جانانۂ فن
کل بھی تھی تو مرا موضوعِ سخن، آج بھی ہے
ترا آغوشِ حسیں میرا مقدّر نہ سہی
میرے حصّے میں ترے دل کی دُکھن آج بھی ہے
Comments
Post a Comment