एक स‌े अधिक शादी ?

 تعدد ازدواج۔۔ایک اہم ضرورت

 قریب ایک ہفتہ قبل ہمیں اپنے بھتیجے کے واٹس ایپ سے ایک ۳۷ سالہ خاتون کا فوٹو اور بایو ڈاٹا موصول ہوا۔استفسار پر معلوم ہوا کہ مذکورہ مطلقہ ہے اور اور ایک بچی کی ماں ہے اور نکاح ثانی کی خواہشمند ہے۔ مناسب بر ملنے پر کسی کی دوسری بیوی بھی بننے کو تیار ہے۔مزید گفتگو سے پتہ چلا کہ ایک گروپ ہے جو تعدد ازدواج کی ہمت افزائی کر رہا ہے جس میں ہمارا بھتیجہ بھی شامل ہے۔اس گروپ کے پاس کچھ مردوزن کی تصاویر اور بایوڈاٹاز ہیں اور یہ نوجوان (ممکن ہے اس گروپ میں کچھ عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہوں)نکاح ثانی کے لئےیا ایک سے زائد نکاح کے لئے ان کی مدد کرتے ہیں۔یہ تفصیلات جان کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی اور ہم نے اس کام کو بہت سراہا۔ہم نے کہا کہ یہ کام وقت کا تقاضہ ہے۔اور کوشش کی جائے کہ اس کام کو جگہ جگہ پھیلایا جائے۔اور اس طرح کے گروپ تیار کئے جائیں۔مگر،یہ کام ہے بڑا مشکل۔ہمیں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ ایک بار ہمارے ایک کزن نے فرمائش کی کہ ہم ان کے نکاح ثانی کے لئے لڑکی تلاش کر دیں۔جب بات پھیلی تو پہلی بیوی اور رشتے داروں کی بہت گالیاں کھانی پڑیں۔اور یہ اس حالت میں جب کہ پہلی بیوی ڈاکٹر ہے۔اگر خاتون خانہ ہوتی تو کیا ہوتا۔پھر ہوا یہ کہ صاحب کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔تعدد ازدواج یا Polygamy کی ہمت افزائی بہت اہم کام ہے اس سے ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔مگر اس کے لئے بہت ساری تیاریاں Ground Work کرنا ہوگا۔ ہمارے یہاں شوہر بیوی کا مجازی خدا ہوتا ہے۔پھر ہم جیسے لوگ یہ بات بڑی شدو مد سے پھیلاتے ہیں کہ اگر خدا کسی انسان کو انسان کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کا سجدہ شوہر کو ہوتا۔اب اگر بیوی شوہر کو رزاق بھی سمجھ لے تو غلطی کس کی ؟ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم ایمان کی باتیں صرف زبان سے کرتے ہیںعملی ثبوت دینے کا وقت ا?تا ہے تو بت پرستوں میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔اور ہو بھی کیوں؟ہم بت پرستوں کی اولاد ہی تو ہیں۔ہمارامعاشرہ تعدد ازدواج کو برا سمجھتا ہے۔ہم طلاق کو ناقابل برداشت سمجھتے ہیں۔کیوں؟اسلئے کہ یہ دونوں باتیں خاندان کے معاشی حالات کو ضرب پہونچاتے ہیں۔پہلی بیوی یہ سمجھتی ہے کہ شوہر سے اسے اور اس کے بچوں کو جو رزق حاصل ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس میںکمی واقع ہو جائے گی۔اس لئے وہ یہ تو برداشت کر سکتی ہے کہ اس کا شوہر سماج میں گند پھیلاتا پھرے،کوٹھوں کے چکر لگائے یا کسی کو رکھیل بنالے مگر اپنے حق میں کسی کو مستقل حصے دار بنانے کو تیار نہیں ہوتی۔اور یہی حال طلاق کی بنا پر بھی ہوتا ہے۔بھائی بہن کو اپنے بیوی بچوں پر بوجھ سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی طلاق سے اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھدار ہندو بھی نفرت کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی مطلقہ خواتین کو بھی ہندو مطلقہ خواتین کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔کل جن خواتین نے اپنے شوہر کو دوسری بیوی کرنے سے روکا تھا ا?ج انہی کی مطلقہ بچیوں کواور بیوہ کیا ناکتخدابچیوں کو بر نہیں ملتا۔اسلئے کہ انھوں نے معاشرے کی اصلاح میں بھر پور مزاحمت کی تھی۔ہم جب تک اپنے معاشرے کو صحابہ کرام? کے معاشرے تک نہیں لے جاتے ہماری اس طرح کی کوششیں خاطر خواہ پھل بھی نہ دے سکیں گی۔اکثر و بیشتر ہمارے واٹس ایپ پر کسی مسلمان بچی کے کسی ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ جانے کے یا شادی کر لینے کے پیغامات ا?تے ہیں۔چند ماہ پہلے ایک دوست نے بتایا تھا کہ بمبئی اور پونا کی عدالتوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروںCourt Marriages کی عرضیاں لگی ہوئی ہیںجس میں مسلمان لڑکی ہندو لڑکے سے شادی کر رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سب دیکھ کر بھی ہم سدھرنے کو تیار نہیں تو اللہ سے رحم کی امید کرتے کیوں ہیں؟ابھی چند دنوں پہلے ہمیں ایک ایسی محفل میں بلایا گیا تھا جہاںمطلقہ لڑکی کا نکاح مطلقہ لڑکے سے کرنے کی بات ہونے والی تھی۔لڑکی کے گھر والے چاہتے تھے کہ ہم کاغذات دیکھ کر بتائیںکہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں۔طلاق نامہ باقاعدہ اسٹیمپ پیپر پر ہندی میں لکھا ہوا تھا اور اس میں صاف صاف لکھا ہوا تھا کہ لڑکے کی بیوی ایک ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے اسلئے وہ اس کو طلاق دے رہا ہے۔مزید کریدنے پر معلوم ہوا کہ یہ عشق شادی سے پہلے ہی سے چل رہا تھا۔لڑکی کے والد نے یہ دیکھ کر جلدی سے اسے اس مسلمان لڑکے کے سر منڈھ دیا۔ظاہر ہے کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے مسائل کیوں پیدا ہو رہے ہیں اب جو زمانہ ہے اس میں لڑکے تعلیمی میدان میں لڑکیوں سے پیچھے ہو چکے ہیںاور لڑکیاں لڑکوں سے بہت بہت ا?گے ہیں۔اور ہم گدھے دوسروں کو اپنی خواتین میں تعلیمی ترقی دکھانے کی خاطر اس زھر کو امرت سمجھ کر پی رہے ہیں۔ہمارے بڑے سے بڑا دانشوریہ سوچنے کو تیار نہیںکہ ? اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر?خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔خواتین میں تعلیمی ترقی بھی ضروری ہے۔مگر اولاد نرینہ کی قیمت پر نہیں۔ا?ج سے ۲۰?۲۲ سال پہلے پونہ کے اعظم کیمپس والوں نے جب اسکالر بیچ شروع کئے تھے تو بمبئی کے ایک دانشور نے جو ا?ج ایک بڑے اخبار کے بڑے ایڈیٹر بھی ہیں نے اس اسکالر بیچ کی تعریف میں زمین و ا?سمان کے قلابے ملائے تھے۔اتفاق سے ان سے ملاقات ہو گئی۔ہم نے ان سے کہا تھا کہ اتنا ہی نہیں اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اس کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔انھوں نے پوچھا۔کیوں؟ہم نے کہا کہ اس بیچ میں ۱۳ لڑکے اور ۲۷ لڑکیاں ہیں۔ہاں تو؟۔ہم نے کہا کہ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ سب کے سب ایم بی بی ایس کو چلے جاتے ہیں بلکہ اور ا?گے بڑھ کے یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ سب کے سب IAS/IPS بھی ہوجاتے ہیں۔ہم مزید یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ یہ ۱۳ لڑکے ان ۲۷ میں سے ۱۳ لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں۔ہماری فکر کا محور یہ ہے کہ باقی ۱۴ لڑکیوں کا کیا ہوگا؟مگر اتنی دور کی بات سوچتا کون ہے؟اب جو کچھ ہمارے یہاں ہو رہا ہے اس سے دانشوروں کو کیا لینا دینا۔ٹھوکریں کھانے کے بعد کم سے کم اب تو لڑکوں کی تعلیم پر توجہ دیں۔اب تو تعددازدواج کو بڑھاوادیں۔اپنی خواتین کے دماغوں میں بٹھائیں کہ ایک سے زائد شادی سنت ہے اور شوہر کی ا?وارگی گناہ جس کے وبال سے بیوی بھی نہ بچ سکے گی۔ قریب دو سال پہلے ایک شادی میں کھانا کھاتے ہوئے ٹیبل پر ہم اور دو وکیل دوست جمع ہوگئے۔ہم نے کہا کہ تعدد ازدواج کی شرائط اور فوائد بتلائیے۔انھوں نے بتلانا شروع کیا مگر ہمارے دماغ میں موجود بات تک نہ پہونچے۔ہم نے کہا کہ ہمارا مطالعہ ومشاہدہ یا تجربہ کہہ لیں یہ ہے کہ بیوی اپنے بسترپر شوہر سے ہر جائز و ناجائز مطالبہ منوالیتی ہے۔شوہر کو چونکہ اپنی ضرورت پوری کرنی ہوتی ہے اس لئے وہ تمام مطالبات مان بھی لیتا ہے۔یہ سرنڈر پہلے ضرورت اور پھر عادت بن جاتی ہے۔اس طرح شوہر عموما زن مرید بنتے ہیں۔ہم نے اس طرح کے گھروں کو عموما مسائل سے گھرا دیکھا ہے۔اب اگر شوہر کے پاس دوسرا ا?پشن موجود ہو تو وہ سرنڈر نہیں ہوگا بلکہ بلیک میل کرنے والی بیوی کوٹھوکر مار کردوسری کے پاس چلا جائے گا۔ یہ جان کر بہت بہت تعجب ہوا کہ ہمارے بڑے بڑے علمائ کرام نہ خود تعدد ازدواج سے متمتع ہوئے نہ اس کی حوصلہ افزائی کی یہاں تک کہ مولانا مودودی ? نے بھی صاحب حیثیت ہونے کے باوجود ایک سے زائد شادی نہ کی۔اقامت دین کی مدعی ہونے کے باوجود جماعت اسلامی نے تعدد ازدواج کے لئے ماحول بنانے کی کوئی کوشش نہ کی۔اس لئے ہم نوجوانوں کے مذکورہ بالا گروپ سے استدعا کریں گے کہ وہ خود اس پر عمل کرکے اور ۲?۳ بیویوں کو نباہ کر مثال قائم کریں۔کیونکہ charity begins at home۔دوسری طرف اپنے قارئین سے گزارش کریں گے کہ وہ اس گروپ سے رابطہ کرکے ان کی جو بھی اور جس طرح بھی ممکن ہو مدد کرنے کی کوشش کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

ابا ‏کی ‏باتیں ‏

قربانی کی اصل روح: تقویٰ، خلوص اور جاں نثاری