مدارس کے طلبہ آن لائن کلاسوں سے محروم کیوں رکھے گئے
مدارس کے طلبہ آن لائن کلاسوں سے محروم کیوں ر
کھے گئے؟
مرکزی حکومت کی جانب سے اَن لاک ۴ کے لئے ہداےات جاری کردی گئی ہےں،جس کے مطابق ملک کے تمام تعلےمی ادارے ۰۳ ستمبر تک بند ہی رہےں گے۔ صرف آن لائن کلاسوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اکتوبر میں بھی کھل سکےں گے ےا نہےں اس کا فےصلہ ستمبر کے آخر مےں کےا جائے گا۔ کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باعث دنےا مےں جگہ جگہ خاص طور پر ہمارے ملک مےں مارچ ۰۲۰۲ سے لاک ڈاو¿ن (ےا اَن لاک) جاری ہے، جس کی وجہ سے تعلےمی سرگرمےاں بہت زےادہ متاثر ہوئی ہےں۔ ےونےورسٹےوں، کالجوں اور اسکولوں مےں زےر تعلےم طلبہ وطالبات اپنے گھر بےٹھنے پر مجبور ہےں۔ آن لائن کلاسوں سے کسی حد تک ان کے تعلےمی نقصانات کی تلافی کی جارہی ہے، لےکن تجربات سے معلوم ہوا کہ آن لائن کلاسےں پروفےشنل کورسوں کے لئے تو مفےد ہےں، مگر اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ان آن لائن کلاسوں سے بہت زےادہ فائدہ نہےں اٹھا پاتے ہےں۔ لےکن ”کچھ حاصل کرنا بالکل ہی کچھ حاصل نہ کرنے سے بہتر ہے“ کو سامنے رکھ کر تعلےمی سلسلہ کو بند کرنے کے مقابلہ مےں آن لائن کلاسوں کو جاری رکھنا ضروری ہے کےونکہ ان کے ذرےعہ بچے کچھ نہ کچھ پڑھ لےتے ہےں اور ان کا تعلےمی سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ تعلےمی سلسلہ منقطع ہونے پر ان کی موجودہ صلاحتےں بھی ختم ہوجائےں گی۔ نےز موجودہ صورت حال مےں اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نہےں ہے۔ غرضےکہ ےونےورسٹےوں، کالجوں اور اسکولوں مےں آن لائن کلاسوں کے ذرےعہ سال کو زےرو ہونے سے بچانے کی کوشش جاری ہے، مگر مدارس اسلامےہ مےں آن لائن کلاسوں کا نہ تو ابھی تک کوئی انتظام کےا گےا ہے اور نہ ہی مدارس کے ذمہ داروں واساتذہ نے اس طرف توجہ دی ہے، حالانکہ مدارس اسلامےہ کے ذمہ داروں کو حالات کے پےش نظر نئی ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاکر اس مےدان مےں بھی گھوڑے دوڑانے چاہئے تھے۔ لاک ڈاو¿ن کے ابتدائی مرحلہ مےں ہی صورتِ حال کا اندازہ لگاکر مےں نے مدارس اسلامےہ کے ذمہ داروں سے آن لائن کلاسوں کو شروع کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ بچے تعلےم سے جڑے رہےں۔ مگر دےر سے ہی صحےح مگر ندوة العلماءلکھنو¿ اور بعض دےگر مدارس اسلامےہ مےں آن لائن کلاسوں کا سلسلہ شروع ہوگےا ہے۔دارالعلوم دےوبند (وقف) مےں بھی آن لائن کلاسوں کے انعقاد کا فےصلہ کرلےا گےا ہے۔ دےگر مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کا تعلےمی سال خراب نہ ہو۔ مدارس کے ذمہ داروں کی طرف سے عموماً کہا گےا کہ اکثر بچوں کے پاس سمارٹ فون دستےاب نہےں ہے، حالانکہ دنےا کی آبادی سے زےادہ اس وقت موبائل نمبر استعمال مےں ہےں کےونکہ اس وقت دنےا مےں ۸ ارب سے زےادہ موبائل نمبر رجسٹر ہےں جبکہ دنےا کی آبادی ابھی ۸ ارب سے کم ہے۔ غرضےکہ آبادی اور موبائل کے تناسب سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ کی پےدائش سے قبل ہی اس کا نمبر صادر ہوجاتاہے۔ دنےا مےں اس وقت تقرےباً ۴ ارب سمارٹ فون ہےں جو پوری دنےا کی آبادی کا ۰۵ فےصد سے زائد ہے۔ ۰۳۱ کروڑ آبادی والے ملک ”ہندوستان“ مےں تقرےباً ۰۶ کروڑ اسمارٹ فون ہےں۔ غرضےکہ بہت کم گھرانے اےسے ہےں جن مےں اےک بھی سمارٹ فون موجود نہ ہو۔ روز بروز سمارٹ فون کا استعمال بڑھ رہا ہے اور بظاہر بڑھتا ہی رہے گی۔ مزےد معلومات کے لئے گوگل (Google) کا سہارا لےا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ےہ کہنا کہ اکثر طلبہ کے پاس اسمارٹ فون کی سہولےات موجود نہےں ہے، زمےنی حقائق سے انکار ہے۔ اور اگر ےہ تسلےم کر بھی لےا جائے تو کم از کم جن بچوں کے پاس سہولےات موجود ہےں اُن کو کےوں محروم رکھا جائے۔ دوسری بات کہی جاتی ہے کہ سمارٹ فون سے معاشرہ مےں بگاڑ پھےلتا ہے، مگر سوال ےہ ہے کہ مدارس مےں آن لائن کلاسوں کو شروع نہ کرنے سے کےا سمارٹ فون کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے؟ تجرےہ ےہ ہے کہ اب ہم نئی نسل کو سمارٹ فون کے استعمال سے نہےں روک سکتے ہےں، ضرورت ہے کہ ان کو آن لائن کلاسوں مےں مصروف کرکے موبائل کے غلط استعمالوں سے روکا جائے۔ دنےا کے طبی ماہرےن کا کہنا ہے کہ قدےم زمانہ سے اس بےماری کے ہونے کے باوجود اس بےماری کا اب تک کوئی علاج دستےاب نہےں ہے اور اس بےماری سے بچنے کے لئے کسی دوا ےا وےکسےن کی اےجاد کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ اور ےہ مرض اےک دو بار لوٹ کر بھی آسکتا ہے۔ اس وجہ سے ےہ بھی امکان ہے کہ ےہ پورا سال ہی مرض کے چپےٹ مےں آجائے۔ ےقےنا ہمارا ےہ اےمان وعقےدہ ہے کہ ےہ وبائی مرض اللہ کی مرضی کے بغےر دنےا سے ختم نہےں ہوسکتا ہے۔ ہم گھبرائے نہےں اور نہ ہی نا امےد ہوں، اس سے زےادہ خطرناک وبائی مرض اس دنےا مےں پھےلے ہےں، آخر کار اےک دن اس سے بھی نجات ملی، ان شاءاللہ ےہ وبائی مرض بھی اےک دن ختم ہوجائے گا۔ مگر دنےا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے ہمےں زمےنی حقائق پر بھی غور وخوض کرنا چاہئے۔ اس لئے مےں ہندوستان کے تمام بڑے بڑے اداروں اور مدرسوں کے ذمہ داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ نئی ٹکنالوجی کا استعمال کرکے ےونےورسٹےوں، کالجوں اور اسکولوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زےادہ منظم طرےقہ سے مدارس اسلامےہ مےں آن لائن کلاسوں کو شروع کےا جائے۔ ےقےنا کچھ دشوارےاں آسکتی ہےں مگر مسلمان دشوارےوں سے گھبراتا نہےں ہے بلکہ وہ انہےں مےں آسانےوں کو تلاش کرلےتا ہے۔ برصغےر کے مدارس مےں ماہ شوال کی ابتدا مےں نئے بچوں کے داخلے اور اس کے فوراً بعد تعلےمی سال شروع ہوجاتا ہے۔ اب اگر وقت کی قلت کی وجہ سے نئے طلبہ کے داخلہ امتحان کا انتظام کرنا آسان نہےں ہے تو کم از کم فوری طور پر اساتذہ¿ کرام کو نئی ٹکنالوجی کی تربےت دے کر قدےم طلبہ کی آن لائن کلاسوں کو شروع کےا جائے۔ ےہ وقت کی عےن ضرورت ہے۔ آن لائن کلاسوں کے لئے انٹرنےٹ پر دستےاب مفت پروگراموں کا بھی سہارا لےا جاسکتا ہے، مگر سےکےورٹی کے لئے آن لائن کلاسوں کے لئے بعض پروگراموںکو خرےد بھی سکتے ہےں، جس کا اےک اہم فائدہ ےہ ہے کہ کلاسےں Advertisements ےعنی اشتہارات سے دور رہےں گی۔ اگر فی الحال باقاعدہ آن لائن کلاسوں کو شروع کرنا مشکل ہے تو کم از کم ہر کلاس کا واٹس اپ گروپ بناےا جائے اور روزانہ وےڈےو بناکر واٹس اپ گروپ پر اپلوڈ کردی جائے تاکہ طلبہ اپنے اپنے مقام پر اپنی سہولت کے اعتبار سے اس سے فائدہ حاصل کرےں۔ الحمد للہ تمام درسی کتابےں مختلف وےب سائٹوں پر مفت ڈاو¿ن لوڈ کرنے کے لئے دستےاب بھی ہےں۔ مزےد مدارس کی وےب سائٹ پر ان درسی کتابوں کو اپلوڈ بھی کردےا جائے تاکہ طلبہ گھر پر رہ کر ہی استفادہ کرسکےں۔ جو علماءحضرات اپنی وےڈےو نہےں بنانا چاہتے ہےں تو وہ کےمرے کا رخ کتاب کی طرف کرکے پڑھائےں، اس طرح طلبہ استاذ محترم کی آواز سے کتاب کے سبق کو آسانی سے سمجھ سکتے ہےں۔ مےں نے بھی شہر سنبھل مےں واقع اپنے اسکول ”النور پبلک اسکول“ مےں اسی طرح آن لائن کلاسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ الحمد للہ بچوں کی اکثرےت ان آن لائن کلاسوں سے استفادہ کررہی ہے۔ اس مےں کوئی شک نہےں ہے کہ ےہ آن لائن کلاسےں حقےقی درسگاہوں کا بدےل نہےں ہوسکتی ہےں کےونکہ اس مےں بچوں کی تربےت نہےں ہوپاتی ہے اور طلبہ واساتذہ کا خاص تعلق قائم نہےں ہوتا ہے، مگر اس وقت ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہےں ہے۔ اس لئے مےں علماءکرام سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح چند سالوں سے علماءکرام نے وعظ ونصےحت کے لئے سوشل مےڈےا کا سہارا لےنا شروع کردےا ہے، اسی طرح لاک ڈاو¿ن جےسے حالات مےں آن لائن کلاسوں کوشروع کےا جائے تاکہ طلبہ کسی حد تک کتابوں سے منسلک رہےں۔ جس طرح تقرےباً تےس سال مےں تعلےمی وسائل مےں بڑی تبدےلی رونما ہوئی ہے کہ تختی، بانس کے قلم (ٹاٹل) اور دوات کی جگہ اب کاپی اور بال پےن نے لے لی ہے۔اسی طرح قوی امےد ہے کہ اگلے تےس سال مےں وزنی بےگوں اور کتابوں کے بجائے لےپ ٹاپ، ٹےب، موبائل، انٹرنےٹ اور موڈرن کلاس روم کا رواج عام ہوجائے گا۔
Great
ReplyDeleteThanks
DeleteMasha Allah
ReplyDeleteThanks۔۔۔
ReplyDelete