میں وہ کس طرح سے کروں بیاں

 میں وہ کس طرح سے کروں بیاں

جو کیے گئے ہیں ستم یہاں

سنے کون میری یہ داستاں

کوئی ہم نشین ہیں نہ رازداں

جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں

نہیں کھولی میں نےمگر زباں

یہ اکیلا پن یہ اداسیاں

میری زندگی کی ہے ترجماں

میری ذات ذرّہ بے نشاں


کبھی سونی صبح میں گھومنا

کبھی اجڑی شاموں کو دیکھنا

کبھی بھیگی آنکھوں سے جاگنا

کبھی بیتے لمحوں کو سوچنا

مگر ایک پل ہے امید کا

ہے مجھے خدا کا جو آسرا

نہ ہی میں نے کوئی گلا کیا

نہ ہی میں نے دی ہے دوہایاں

میری ذات ذرّہ بے نشاں


میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملے

مجھے صبر ہی کا صلہ ملے

کسی یاد ہی کی سزا ملے

کسی درد ہی کا صلہ ملے

کسی غم کی دل میں جگہ ملے

جو میرا ہے وہ مجھے آ ملے

رہے شاد یوں ہی میرا جہاں

کہ یقین میں بدلے میرا گماں

میری ذات ذرّہ بے نشاں

Comments

Popular posts from this blog

ابا ‏کی ‏باتیں ‏

قربانی کی اصل روح: تقویٰ، خلوص اور جاں نثاری