Posts

Showing posts from April, 2021

یعنی ‏تو ‏

Image
پہنچ سے دُور ۔۔ چمکتا سراب یعنی تُو  مجھے دکھایا گیا ایک خواب یعنی تُو۔۔۔ مَیں جانتا ہوں ببُول اور گلاب کے معنی  ببُول یعنی زمانہ ، گلاب یعنی تُو۔۔۔ جمالیات کو پڑھنے کا شوق تھا ، سو مجھے عطا ہوا ہے مکمل نصاب یعنی تُو۔۔۔ کہاں یہ ذرّہء تاریک بخت یعنی مَیں کہاں وہ نُور بھرا ماھتاب یعنی تُو۔۔۔ بدل گئی ہے بہت مملکت مرے دِل کی کہ آگیا ہے یہاں انقلاب یعنی تُو۔۔۔ ہر اِک غزل کو سمجھنے کا وقت ہے نہ دماغ مجھے بہت ہے فقط انتخاب یعنی تُو۔۔۔ کبھی تو میرے اندھیروں کو روشنی دے گا گریز کرتا ہوا ماھتاب یعنی تُو۔۔۔ اِدھر ہے کوہ کنِ دشتِ عشق یعنی مَیں اُدھر ہے حُسنِ نزاکت مآب یعنی تُو۔۔۔ اُجاڑ گُلشنِ دل کو بڑی دعاؤں کے بعد ہوا نصیب گُلِ باریاب یعنی تُو۔۔۔ بہت طویل سہی داستانِ دل ، لیکن بس ایک شخص ہے لُبِّ لباب یعنی تُو۔۔۔ کبھی کبھی نظر آتا ہےدشتِ ہجراں میں جنُوں کی پیاس بڑھاتا سراب یعنی تُو۔۔۔ چکھے بغیر ہی جس کا نشہ مُسلسل ہے  مجھے بہم ہے اِک ایسی شراب یعنی تُو۔۔۔ کوئی سوال ہےجس کو جواب مِلتا نہیں سوال یعنی کہ فارس ، جواب یعنی تُو۔۔

سنو ‏تم ‏خوبصورت ‏ہو ‏

Image
سنو تم خوبصورت ہو  بلا کی خوبصورت ہو  اگر شیشہ تمہیں دیکھے  تمہارے عکس کے صدقے  وہ آنکھیں دان کر ڈالے ۔۔!!! سنو تم خوبصورت ہو ۔۔!! تمہاری نیلگوں آنکھیں کسی بنجر زمیں پہ دیومالائی سی جھیلیں ہیں کہ جن میں تیرنے والے خزانے ڈھونڈ لاتے ہیں ۔  سنو تم خوبصورت ہو۔۔!!!  تمہارے ہونٹ پھولوں سے بنی مے کے پیالے ہیں ۔  کہ ان میں جام پی کر ہوش میں آنا ناممکن ہے  سنو تم خوبصورت ہو ۔۔!!! تمہارے گال شبنم میں گندھی روئی کی فصلیں ہیں  تمہارا لمس ریشم سا ۔۔!! کہ یونانی مورخ گر سراپا دیکھ لیتے یہ ۔!! تو دنیا کے عجائب میں تمہارا حسن اول تھا  بہت سوچا تراشوں میں ترا پیکر یہ لفظوں میں  مگر یہ خوف ہے لاحق ۔۔!!! میں ایسی نظم لکھ دوں گا  کہ کوئی سر پھرا حاکم  مرے یہ ہاتھ لے لے گا  کبھی میں لکھ نہ پاوں گا دوبارہ خوبصورت نظم  سنو تم خوبصورت ہو ۔۔!!! مگر جو ہاتھ ہیں میرے انھیں میں دے نہیں سکتا  تمہارے اس مقدس جسم کو چھو کر ہیں مقدس یہ  ہیں ان دیکھے جزیروں کے محافظ یہ  تمہارے لمس کے ساحل  تمہاری آنکھ کے کاجل کی کانوں کے مح...

وعدہ ‏حور ‏پہ ‏بہلائے ‏ہوئے ‏لوگ ‏ہیں ‏ہم

Image
وعدہ حور پہ بہلائے ہوئے لوگ ہیں ہم خاک بولیں گے کہ دفنائے ہوئے لوگ ہیں ہم یوں ہر ایک ظلم پہ دم سادھے کھڑے ہیں جیسے دیوار میں چنوائے ہوۓ لوگ ہیں ہم اس کی ہر بات پہ لبّیک بھلا کیوں نہ کہیں زر کی جھنکار پہ بلوائے ہوئے لوگ ہیں ہم جس کا جی چاہے وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم ہنسی آئے بھی تو ہنستے ہوۓ ڈر لگتا ہے زندگی یوں تیرے زخمائے ہوئے لوگ ہیں ہم آسماں اپنا زمیں اپنی نہ سانس اپنی تو پھر جانے کس بات پہ اترائے ہوئے لوگ ہیں ہم جس طرح چاہے بنا لے ہمیں یہ وقت قتیل درد کی آنچ پہ پگھلائے ہوئے لوگ ہیں ہم