دنیاوی حقیقت
ہم چاہیں تو بدل دیں ، زمانے کی چال تک
لیکن معاملہ ہے ، فقط قیل و قال تک
بیٹے لڑیں گے تیری وراثت کے واسطے
یہ متّحد ہیں صرف ، ترے انتقال تک
یومِ حساب کا نہیں آتا خیال بھی
دنیا کی دَوڑ دھوپ ہے مال و منال تک
اک بات پوچھتا ہوں میں ، اربابِ علم سے
بے علم کیسے آگئے ، اَوجِ کمال تک ؟
ہم نے تو دشمنوں کو بھی تعلیمِ امن دی
کم ظرف سوچتے رہے ، جنگ و جِدال تک
مخبرتھا ، اس نے بھید عدو کو بتا دئے
وہ میرے ساتھ ساتھ رہا دیکھ بھال تک
بامِ عروج زیرِ قدم تھا مگر خلش
ہم لوگ آج آگئے ، حدِّ زوال تک
Comments
Post a Comment