خوش فہمی کے بیچ کورونا کا چڑھتا قہر

 خوش فہمیوں کے درمیان کورونا کا برھتا ہوا قہر

کورونا وائرس کا قہر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ اب ہندوستان ، برازیل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد کے لحاظ سے عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر پہنچ گئی ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ ہے ۔ پچھلے دو دنوں میں یعنی 6 اور 7ستمبر سے لگاتار 90 ہزار کورونا کے نئے معاملے سامنے آئے ہیں۔

 صحت یاب ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس کا فیصد 77.6 بتایا جا رہا ہے ۔ چوبیس گھنٹوں میں یعنی ایک دن میں ہندوستان میں 75 ہزار 809 نئے معاملات سامنے آئے ہیں اور اس مرض سے متاثر ہوکر فوت ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار 133 بتائی گئی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق روزانہ متاثرہ افراد اور مرنے والوں کی تعداد کے حساب سے ہندوستان پہلے نمبر پر ہے ۔ اس مرض سے علاج کے دوران کوشش یہ کی جاتی ہے کہ مریض کے جسم میں قوت مدافعت Immunity تادیر قائم رہے تاکہ فوری طورپر دوبارہ مرض کا شکار نہ ہو۔ مگر اب تک پوری دنیا میں تین ایسے معاملات سامنے آئے ہیں کہ مریضوں کو کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے یا انفیکٹ ہونے کی نوبت آئی ہے ۔ اس میں ایک معاملہ 27 سالہ خاتون کا ہے جو بنگلور سے تعلق رکھتی ہیں۔ Re-infection دوبارہ متاثر ہونے کا معاملہ کورونا وائرس کے علاج کے لئے ہو رہی ویکسین کی تحقیقی مراحل میں مزید پیچیدگی پیدا کرسکتا ہے ۔ ہندوستان کی صورتحال یہ ہے کہ ہر روز کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ تادم تحریر 42 لاکھ 80 ہزار 442 افراد اس مرض سے ہندوستان میں متاثر ہیں ۔ 33 لاکھ مریض اب تک صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اور 72 ہزار 816 متاثرہ افراد فوت ہوچکے ہیں۔ مہاراشٹرا ، آندھرا پردیش ، تملناڈو اور اترپردیش میں متاثرین اور اموات کی تعداد برھتی ہی جا رہی ہے ۔ تعداد کے لحاظ سے ملک کے 62 فیصد متاثرین ان ریاستوں سے وابستہ ہیں۔ عام طور پر یہ خوش فہمی عام ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات ان دنوں کم ہونے لگے ہیں ۔ مگر جن علاقوں میں ٹسٹ کروانے کے اعداد کم ہوئے ہیں، وہاں متاثرہ احباب کی تعداد بھی واضح طور پر کم نظر آئی ہے ۔ جب جب ٹسٹ کروائے جا رہے ہیں حقیقی تعداد سامنے آرہی ہے ۔ ایک طرف سنگین حالات سے دوچار ہندوستان کورونا قہر کی زد میں ہر روز شدت سے مبتلا ہو رہا ہے ۔ دوسری جانب ان لاک بتدریج مراحل لے آرہا ہے ۔ اب کئی ریاستوں میں رفتہ رفتہ لاک ڈاو¿ن کے دوران جن شعبہائے حیات پر پابندی لگائی گئی تھی، اب ہٹائی جا رہی ہے ۔ ریاستوں کے مابین آمد و رفت شروع ہوچکی ہے ۔ ٹرانسپورٹ کے وسائل وسیع پیمانے پر کھل رہے ہیں۔ ریل گاڑیاں آہستہ آہستہ معمول کی جانب لوٹنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ میٹرو ٹرین چند ریاستوں میں اب سماجی فاصلوں پر عمل پیرائی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ لوگ بھی چند شہروں میں جیسے بنگلور میںکورونا وائرس کی پابندیوں سے بیزار ہونے لگے ہیں۔ چہرے پر ماسک پہننا اب گراں گزرنے لگا ہے۔ کچھ لوگ اکثر شادی بیاہ کی رسومات کے دوران وہ پہلے جیسی پابندیاں اور احتیاط برتنے کا خیال اب کم ہی نظر آرہا ہے ۔ کئی شہروں میں ہوٹل ، دکان اور کارخانے اب کھل گئے ہیں۔ ہوائی جہازوں کی پروازوں کی تیاری بھی انتظامی مراحل میں ہے ۔ لوگ پھر سے اپنے معمولات کی جانب لوٹنے کے لئے بے چین اور بے تاب ہیں۔ شاید انہیںمنڈلاتے خطرے کے بادلوں کا اندازہ یک لخت نہیںہے ۔ یا پھر ہے بھی تو بے نیازی برتی جا رہی ہے۔ مگر ملک میں رونما ہونے والے تیز تر رجحان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا کا خطرہ اب بھی پوری طرح لاحق ہے جو لوگ محفوظ ہیں، وہ خوش نصیب ہیں کہ احتیاطی تدابیر کے عوض وہ سلامت ہیں، مگر چند حلقوں میں”تقدیر کے لکھے “پر اکتفاءکرلیا جاتا ہے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ جب ہوگا تب دیکھنے کے لئے وقت کہاں رہ جائے گا ؟ حالات لاک ڈاو¿ن کے مقابلے میں معمول کی طرف لوٹنے لگے ہیں۔ تو اس بات کا خاص خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ احتیاط ہر حال میں مو¿ثر علاج ہے ۔ ذرا سی کوتاہی کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی، اس کا احساس پہلے سے زیادہ اب بے حد ضروری ہے ۔ سڑکوں اور بازاروں میں بڑھتی بھیڑ کو دیکھ کر خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ جانے انجانے میں لوگ کہیں اپنے لئے پریشانیاں تو پیدا نہیں کر رہے ہیں۔ اب علاج کے لئے بھی نئی نئی پریشانیاں سامنے آرہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لئے بستروں کی قلت اور اسپتال بھرے پڑے ہیں تو دوسری جانب پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگے علاج اور وہاں بھی مریضوں کی بڑھتی تعداد نے کئی مسئلہ کھڑے کردئے ہیں۔ صاحب اقتدار وزیراعلیٰ اور وزراءجب بھی کورونا سے متاثر ہوتے ہیں وہ علاج کےلئے نجی ( پرائیویٹ ) اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، وہ اپنے بیانات میںمسلسل حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ اور علاج کے لئے سہولتوں اور دواو¿ں کی فراہمی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کو علاج کے لئے معقول اور متحرک قرار دینے والے وزراءاور اعلیٰ سرکاری افسر اپنے علاج کےلئے پرائیویٹ اسپتالوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ عوام کو احتیاطی تدابیر سے جوڑے رکھنے کا کام اب صرف نعروں، اشتہاروں اور موبائیل فون میں رنگ ٹیون سے پہلے احتیاطی تدابیر کی انتباہ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ اگر ہم باشعور ہیں، اور اللہ کی عطا کردہ عقل و دانش سے آراستہ ہیں تو اس مہلک مرض سے بچنے کےلئے احتیاطی طریقہ کار پر پابند عمل رہنا ہماری عافیت اور سلامتی کے لئے اشد ضروری ہے ۔ چلتے چلتے ملک میں فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ فرقہ پرستوں کو اب بھی مندر مسجد کا مسئلہ ہی اہم رہا ہے ۔ نت نئی شرانگیزیاں پھیلانے اور تنازعات کو ہوا دینے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ ملک کی معیشت بھی دن بہ دن بگڑتی ، سکڑتی چلی جا رہی ہے جس کی بحالی کےلئے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی حکمت عملی ناقص اور فرسودہ ہے ۔ اس ضمن میں ماہر معاشیات اور سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا رگھو رام راجن نے مرکزی حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ ملک میں نئے مالی سال کی پہلی سہ ماہی یعنی اپریل تا جون میں ترقی کی شرح میں 23.9 فیصد گراوٹ واقع ہوئی ہے جو اب تک کی شرح میں سنگین تر ہے ۔ کورونا وائرس سے شدت سے متاثر ہونے والے امریکہ اور اٹلی کی معیشتیں بھی بری طرح متاثر تھیں، مگر ان سے بری حالت ہندوستان کی معیشت کی ہے ۔ رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ اگر کورونا وائرس پر پوری طرح قابو پانے کے بعد مرکزی حکومت راحت کاری کا کام انجام دے گی تو غلط فیصلہ ہے ۔ اس لئے کہ تب تک بہت تاخیر ہوجائے گی اور معیشت بری طرح متاثر ہوکر رہ جائے گی۔ معیشت کو اب ایک مریض کی طرح دیکھنے کی ضرورت ہے جس کا لگاتار علاج ضروری ہے ۔ راحت کاری کے بغیر لوگوں کے رہن سہن اور کھانے پینے پر اثر پڑے گا۔ عام لوگ بچوں کو اسکول سے نکال کر کمانے بھیجنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ بے روزگاری بڑھتی جائے گی۔ چھوٹی صنعتیں تنخواہ نہیں دے سکیں گی اور بند ہوجائیں گی ۔ عام طبقے کے لوگ گھروں کا کرایہ ادا نہ کرسکیں گے ۔ مشکلیں بڑھتی ہی جائیں گی۔ حکومت کو فوری طور پر معیشت کی بحالی پر توجہ دینی ضروری ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

ابا ‏کی ‏باتیں ‏

قربانی کی اصل روح: تقویٰ، خلوص اور جاں نثاری