آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

 آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچاہے جس کو متاثر نہ کیا ہو، سوشل میڈیا کی بآسانی دستیابی نے پوری دنیا کو ایک آزاد پلیٹ فارم مہیا کرادیا ہے جہاں ہر کس و ناکس اپنے خیالات کا برملا اظہار کرسکتا ہے ، ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام جیسی سوشل سائٹوں پر سیاسی ، سماجی ، تجارتی ، فلاحی،تعلیمی غرضیکہ ہر طرح کے موضوعات پر لوگوں کے تبصرے دیکھنے سننے اور پڑھنے کو مل جائیں گے، ایک دوسرے سے دوستانہ مراسم قائم کرنا اور ان کے دکھ درد میں شامل ہونے تک تو یہ بات انسانوں کے لئے کافی حد تک مفید ثابت ہوئی ہے لیکن اسی ذرائع ابلاغ و ترسیل کا استعمال اگر تخریبی کارروائیاںسرانجام دینے کے لئے ہونے لگے تو اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں میں متعدد بار ایسا ہوا ہے جب سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرکے ملک کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کامیاب کوشش کی گئی ہے گذشتہ دنوں کرناٹک کے شہر بنگلور میںہوئے فرقہ وارانہ فساد کے پیچھے بھی سماجی ویب سائٹ کا غلط استعمال سب سے بڑی وجہ ہے۔

12اگست بروز بدھ بنگلورومیں فساد کی شروعات بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی واقع ہوئی عوامی ذرائع کے مطابق پیغمبر اسلام کے جس متنازع پوسٹ کی وجہ سے اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا اس کے بارے میں پولس اور انتظامیہ کو پہلے ہی خبر دی جاچکی تھی جس پرپولس نے نہ صرف دھیان نہیں دیا بلکہ عوام کو یہ بول کر اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی گئی کہا گیا کہ یہ دلت اور مسلم سماج کے اپنے ذاتی معاملات ہیں اس کو دلت مسلم اتحاد کے حامی لوگ اپنے طور پر سلجھا لیں اس میں پولس کچھ نہیں کرسکتی نیز پولس نے ہمیشہ کی طرح معاملے کو نظرانداز کردیا عوامی دباو¿اور مطالبہ کے باوجود بھی ملزم کے خلاف نہ تو ایف آئی آر درج کی گئی نہ ہی اسے گرفتار کیا گیا جس کے نتیجے میں عوام نے نعرے بازی شروع کردی بھیڑ کو منتشر اور قابو میں کرنے کا بہانہ بنا کر پولس نے فائرنگ کردی واضح ہو کہ پولس کی فائرنگ سے ہی 3 لوگوں کی موت واقع ہو گئی جس کے بعد وہاں موجود گاڑیوں میں آگ لگا دی گئی اور موجودہ کانگریس کے ممبر اسمبلی کے گھر پر پتھر بھی پھینکے گئے جس کے بعد بنگلورو پولیس کمشنر کمل پنت کے مطابق متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا جبکہ پورے شہر میں دفعہ 144 نافذ کردیاگیا، اے این آئی نے بنگلور کے جوائنٹ پولیس کمشنر (کرائم) سندیپ پاٹل کے حوالے سے بتایا کہ اس معاملے میں اب تک 110 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اطلاعات کے مطابق اکھنڈ سرینواسن مرتھی (Akhanda Srinivas Murthy)کانگریس ایم ایل اے کے رشتہ دار نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر ایک قابل اعتراض پوسٹ شائع کی تھی جس کے خلاف منگل کی شام لوگوں کی بڑی تعداد پولیس اسٹیشن پہنچی اور پوسٹ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا،پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم کا مطالبہ تھا کہ ایف آئی آر درج کی جائے اور ایم ایل اے کے رشتہ دار کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے کیونکہ اس نے ان کے مذہبی جذبات مجروح کیے ہیں۔

یہاں عوام کے مطالبے کو کسی طور بھی غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن پولس نے عوام کے مطالبہ کو بالائے طاق رکھ دیااور معاملے کو مزید گرم کرنے کے لئے طنع و تشنیع بھی کیا گیا، معاملے کو بگڑتا دیکھ کر مذکورہ ایم ایل اے کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کرکے مسلمانوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی گئی ہے اور انھیں یقین دلایا گیاکہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور اس معاملے میں مناسب کارروائی کی جائے گی، ایم ایل اے نے ویڈیو میں کہاکہ معاملہ چاہے جوہو ہم سب آپس میںبھائی بھائی ہیں،ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ جو بھی اس کے ذمہ دار ہیں انھیں قرار واقعی سزا ملے، میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، میری گذارش ہے کہ آپ امن قائم رکھیں، کرناٹک کے وزیر داخلہ نے بھی ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آتشزدگی اور تشدد قانون کے خلاف ہیں، جو بھی معاملہ ہے اسے قانونی دائرے میں ہی حل کرنا ہوگا، میں نے پولیس کو امن کی بحالی کا حکم دیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ گنہگار کتنے ہی بڑے اثر و رسوخ والے ہوں ہم اس بات کایقین دلاتے ہیں کہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اورجو بھی اس کا ذمہ دار ہے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی نیزکسی بھی خاطی کو بخشا نہیںجائے گاکرناٹک کے مدرسہ سبیل الرشاد کے سربراہ امیر شریعت مولانا صغیر احمداور دیگر مذہبی شخصیات نے بھی مسلمانوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے کیونکہ پولیس نے وعدہ کیا ہے کہ جس نے بھی یہ قابل اعتراض حرکت کی ہے اسے سزا دی جائے گی، انھوں نے لوگوں سے کہا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں، حکومت کارروائی کرے گی۔

اس پورے واقعہ میں اگر غیرجانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات پولس اور عوام کے درمیان مشترک پائی جاتی ہے کہ فساد کے کم از کم ایک روز قبل سے ہی شہر کے مسلمانوں نے پولس اور انتظامیہ کو نہ صرف متنازع پوسٹ کے بارے میں بتادیاتھا بلکہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی بھی حتی المقدور کوشش بھی لیکن پولس رپورٹ درج کرنے سے کتراتی رہی، اگر پولس نے عوام کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرلیا ہوتاجو پولس کی قانونی اوراخلاقی ذمہ داری بھی تھی تومعاملہ فساد تک ہرگز نہیں پہنچتااور اگر عوام کا یہ الزام درست ہے کہ پولس نے معاملے کے قصور واروں کے خلاف کارروائی کے بجائے دلت مسلم اتحاد پر طنز کیا اور رپورٹ درج کرنے سے بھی انکار کردیا توکرناٹک پولس کی یہ دوسری بڑی غلطی ہے جس کے سبب اتنا بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوگیایہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ پولس کس کے اشارے پر کام رہی تھی جو ایک ذمہ دار عہدے پر بیٹھ کر مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو تقسیم کرنے جیسا شرمناک کام انجام دے رہی تھی، کہیں ایسا تو نہیںکہ پولس کسی خاص جماعت کو فائدہ پہنچانے کے مقصد کے تحت یہ غیرقانونی فعل کو انجام دے رہی تھی تاکہ پورے ملک میں دلت مسلم کے اتحاد کے لئے تیار ہورہی زمین کو نقصان پہنچا کر ممکنہ اتحاد کو وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم کیا جاسکے ۔

کانگریس کے ممبراسمبلی کا ویڈیو پیغام جاری کرکے لوگوں سے امن کی اپیل کرنا بھی ایسے ہی ہے جیسے آگ لگوا کر فائربرگیڈ کو آگ لگنے کی اطلاع دینا اور جب تک فائر برگیڈ کی گاڑی موقع واردات پرپہنچے سب کچھ جل کر خاک ہوجائے ، جب فساد سے ایک روز قبل ہی عوم نے پولس کو متنازع پوسٹ کی خبردیدی تھی تو کیا پولس نے مذکورہ ایم ایل اے کو اس کے بھانجے کی کالی کرتوتوں کے بارے میں آگاہ نہیں کیا ہوگا ؟ یقینا کیا ہوگا لیکن جان پوجھ کر معاملے کو اس وقت تک ٹالا گیا جب تک کہ معاملہ تشویشناک صورتحال تک نہیں پہنچ گیا، اور جب پولس کے مطابق دیر رات تک عوام تھانوں کو گھیر کر پتھر بازی کرتی رہی تو اس درمیان پولس کا کیا رول تھا اس نے عوام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جبکہ پولس کا خود یہ کہنا ہے کہ بھیڑ شام سے ہی جمع ہورہی تھی اور فائرنگ دیر رات کو کی گئی یہاں پولس یہ بتانے میں ناکام ہے کہ شام سے دیر رات تک پولس نے مشتعل عوام کو سمجھانے کے لئے کیا کیااور معاملہ قابو سے باہر ہونے پر براہ راست گولی چلانے کے بجائے پہلے آنسو گیس کا استعمال کیوں نہیں کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ پولس نے کسی سیاسی طاقت کے دباو¿ میں آکر فساد ہونے تک انتظار کیانیز پولس کا دلت مسلم اتحاد پر طنز کرنا بھی اس بات کی جا نب اشارہ کرتا ہے ملک دلت مسلم کے ممکنہ سیاسی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ہی اس قدر گھناو¿نی حرکت کو پولس نے انجام دی ہے آخر دیر رات تک عوام کا آتشزنی کرنا اور پولس کا خاموش تماشائی بنے رہنا کس جانب اشارہ کرتا ہے۔

بنگلورو فساد ملت اسلامیہ ہند کے لئے بھی ایک بدنما داغ سے کم نہیں ہے یہ بالکل درست بات ہے کہ ایک مسلمان کواپنے نبی کی عزت و عصمت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزہے لیکن اس بے پناہ محبت کا اظہار اس طرح سے کیا جائے گا تواس کو قطعاً جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے اگر آپ بانی¿ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ¿ حسنہ پر عمل نہیں کرتے ہیں تو آپ کو اس بات کی بھی بالکل اجازت نہیں ہے کہ آپ ان کے ناموس کے نام پر فساد پربا کرکے پوری ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی ذات اعلیٰ صفات کو بھی سوالوں کے دائرے میں کھڑا کردیں، سرکار مدینہ کی مکی زندگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عمل کے درعمل کے بجائے مستقل مزاجی کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرہوکر دنیا کو اپنے نبی کے حقیقی سیرت سے روشناس کرائیں یقین کیجئے بروقت مسلمانان ہند اس سے بہتر طریقے سے ناموس رسالت کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں، دھیان رہے ابتدائے اسلام میں بھی کفار مکہ نے اللہ کے رسول کی کردار کشی تھی لیکن اللہ کے نبی نے ان کے کسی بھی عمل کا ردعمل نہیں دیا بلکہ سبھی کے ساتھ انسانی تقاضوں کے مطابق سلوک کیا بلکہ اس سے بھی بہتر کیا ، یہاں مسلمانوں کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ کفار کے کسی بھی منفی ردعمل کا جواب دینے کی صلاحیت ملت اسلامیہ ہند کے پاس ہے بھی یا نہیں، اگر نہیں ہے تو پہلے خود کو اس لائق بنایاجائے تعلیمی، سیاسی، معاشی تجارتی میدانوں میں محنت کریں سماج میں خود کو تسلیم کروائیںورنہ بغیرسیاسی وجود کے جذبات میں اٹھائے گئے قدم سے رسوائی کے سوا کچھ نہیںہاتھ آئے گا، خود بنگلورو فساد میں جن لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے کیا جذبات میں اٹھائے گئے قدم ان کی اور ان کے اہل خانہ کے لئے مصیبت و پرشانی کا سبب نہیں ہوں گے؟ حالیہ برسوں میں زعفرانی کنبہ کے عزائم سے یہ سمجھا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ہی ان سے متعلقین احباب و رشتہ دار بھی بھی جبریہ قانون کے زد میں لائے جائیں گے اور انہیں مورد الزام ٹھہراکر ان کی زندگی کو تباہ و برباد کردیا جائے گا اس وقت ہر وہ شخص حکومت اور زعفرانی نظریہ کا دشمن ہے جو حق اور انصاف کی بات کرے خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم حکومت حقائق کو مسخ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ہے، ڈاکٹر کفیل خان، شرجیل امام، صحافی پرشانت قنوجیہ،سابق آئی پی ایس سنجیو بھٹ، ڈاکٹر ایوب صدر پیس پارٹی آف انڈیا، سماجوادی رہنما اعظم خان اور اہل خانہ نیز ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن وغیرہ یہ وہ چہرے ہیں جن کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے حکومت کے غلط پالیسیوں اور عدم انصاف پرمبنی کاموں کے خلاف آواز اٹھائی ہے آج یہ سبھی جیل کی سلاخوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں جن کا کوئی بھی حامی و مددگار نہیں ہے اعظم خان ممبر آف پارلیمنٹ اور ریاست اترپردیش کی قدآور شخصیت ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر پارہے ہیں خود ان کی پارٹی سماجوادی پارٹی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ملک اور ملک کا قانون ان سبھی کے معاملے میں مکمل بے بس نظر آرہا ہے، اس حقیقت سے بھی مجال انکار نہیں ہے کہ بنگلورو میں جو کچھ ہوا غلط ہوا اور اس کی مکمل ذمہ داری پولس، انتظامیہ اور حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود سارا قصوران بھولے بھالے لوگوں کا ہوگا جو ناپاک سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے نیز اتنی بڑی واردات کے بعد بھی مسلمانوں کے جذبات دوبارہ مجروح نہیں کئے جائیں گے اس کی بھی کوئی ضمانت نہیںہے، لہذا ملت اسلامیہ ہند سے مخلصانہ اپیل ہے کہ جذبات سے باہر نکل کر عملی دنیا میں قدم رکھیں اور آئندہ ایسی گھناو¿نی حرکت انجام نہ دی جائے اس کے لئے مثبت لائحہ عمل کے ساتھ سیاسی حکمت عملی تیار کریں، سیاسی طاقت ہی عروج و زوال کا ماخذ ہے جس سے الگ ہوکر نہ تو مسلمانوں کے تحفظات محفوظ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی مذہبی تشخصات۔

Comments

Popular posts from this blog

ابا ‏کی ‏باتیں ‏

قربانی کی اصل روح: تقویٰ، خلوص اور جاں نثاری