ابا کی باتیں
: *ابا کی باتیں* مُجھے ابّا کی گھڑی سے بہت چِڑ تھی اُس کی ٹک ٹک میرے سر پر ہتھوڑوں کی طرح لگتی۔ صبح الارم کی آواز سے تو جیسے سارے شہر میں زلزلہ آجاتا۔ جب تک میں اُٹھ نہ جاتا الارم بجتا ہی رہتا۔ اُس کے بند ہونے کے بعد ابا اُس وقت تک آوازیں دیتے رہتے جب تک میں وضو کر کے نہ آجاتا۔ *”او پُتر چھیتی آجا نماز کو دیر ہو رہی ہے۔"* *الصلاة خير من النوم* گلی سے چاچے کُبےّ کی آواز آتی۔ ابا کی چال میں اور پُھرتی آ جاتی۔ مسجد سے واپسی تک نیند ویسے ہی اُڑ جایا کرتی۔ *اب اُٹھ گیا ہے تو دو رکوع بھی پڑھ لے۔* اتنے میں اماں کے پر اٹھوں کی خوشبو صحن میں بھر جاتی اور میں نیند کا غم بھول جاتا۔ اگلے دن پھر وہی ِٹک ٹِک اور الارم۔ میں نے کئی بار خیالوں میں ابا کی گھڑی نُکڑ والے کباڑیئے کو بیچی۔ *رات کو آنکھ کُھلنے پر میں نے ابا کو اکثر جاگتے ، روتے اور دعائیں کرتے پایا۔* جب اُٹھ ہی جاتے ہیں تو پھر الارم کیوں لگاتے ہیں؟ میں اماں سے لڑتا۔ *” ...
Thanks viewers
ReplyDelete