قربانی کی اصل روح: تقویٰ، خلوص اور جاں نثاری
قربانی کی اصل روح ماہِ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ایثارو قربانی، اطاعت و فرماں برداری اور جاں نثاری سے عبارت ہے۔ یہ وہ عظیم الشان دن ہےجب خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ضعیف العمری میں اپنے نوعمر بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالی کی رضا اور خوشنودی کی خاطر قربان کردینے کے لیے قدم اٹھایا۔بیٹا بھی فرماں برداری اور جاں نثاری کا پیکر نکلا۔رضائے الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے خود کو قربان کرنے کے لیے پیش کردیا۔یہ وہ نظارہ تھا جس کو دیکھ کر چشم فلک بھی حیران رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے کی یہ ’ تسلیم ورضا‘ اس قدر پسند آئی کہ ان کے اس عمل کو ”ذبح عظیم“ سے تعبیر کیا اور حضرت اسماعیل کو سلامتی کا پروانہ عطا کرتے ہوئے ان کی جگہ قربانی کے لیے دنبہ بھیج دیااور تمام امتوں کے لیے قربانی کرنا فرض قرار دیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے ”اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیااور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔“دوسری جگہ مزید واضح انداز میں فرمایا ”اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام ...